ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 84
بچھڑے جب اُس سے ہم تو بڑے پیچ و تاب میں
چہرے کے پھول رکھ لیے دل کی کتاب میں
میدانِ زیست میں تو بہت تھے دلیر ہم
دور از تضاد پر تھے محبّت کے باب میں
کیا کیا بُرائیاں نہ سہیں جان و دل پہ اور
لوٹائیں نیکیاں ہی جہانِ خراب میں
تازہ نگاہ جس نے کیا ہم کو بار بار
کیا خوبیاں تھیں اُس کے بدن کے گلاب میں
قائم رہا اسی کے سبب خیمۂ حیات
تھا جتنا زور خاک میں اُتری طناب میں
مدّت سے دل مرا ہے جو تاریک کر گیا
آتا ہے چودھویں کو نظر ماہتاب میں
نااہل ناخداؤں کی ناؤ میں جب سے ہے
ماجد گھری ہے خلقِ خدا کس عذاب میں
ماجد صدیقی
جواب دیں