ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 52
شیرین و تلخ ہونٹ لگیں اُس کے اپنا جام
چشمان و جسم میں لگے یکجا نشہ تمام
ضم کر لیا جمال میں اُس نے مرا جلال
میں تھا سراپا تیغ تو وہ سر بہ سر نیام
آب و ہوا سا رزق بھی یکساں ملے نہ کیوں
اوّل سے آج تک ہے مٔوقف مرا مدام
ہاں گُھرکیوں کی آنچ سے محنت کی دھوپ سے
محنت کشوں کے جسم پہ جُھلسا لگے ہے چام
’بِیجا، بغیرِ آبِ توجہ، بنے گا پیڑ
پالا ہے دل میں کب سے یہی اِک خیالِ خام
کِھیسے میں عمر بھر کی کمائی اِسی کے ہے
عمرِ اخیر، جس کو کہیں زندگی کی شام
روشن اُدھر غزل میں ہے باقی کی چھوٹی بحر
پنڈی میں نُوربافتہ اُس کا اُدھر ’’سِہام‘‘
ماجد سخن میں مشق و ریاضت کچھ اور کر
چمکا نہیں ہے، چاہیے، جس طرح تیرا نام
باقی۔۔باقی صدّیقی۔۔سِہام ۔۔باقی کا جنم استھان
ماجد صدیقی
جواب دیں