ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 56
مستِ چشم و نگاہِ یار ہیں ہم
پی نہیں پھر بھی مے گسار ہیں ہم
ہمِیں ابلیس بھی فرشتے بھی
نور بھی ایک ساتھ نار ہیں ہم
چھپ نہ پائیں کسی کے عیب ہم سے
ہاں بلا کے نگِہدار ہیں ہم
ہم کہ ہوتے ہیں شعر شعر شمار
مان لیں یہ تو بیشمار ہیں ہم
نقش ہوں گے دلوں پہ ہم بھی کبھی
میر و غالب سے یادگار ہیں ہم
میں ہوں، یاور مرا، مرا ذیشان
ہر صدی بِیچ حرفِ جار ہیں ہم
کیوں اُتارے تَھڑے روایت کے
یوں بھی ماجد گنہگار ہیں ہم
ماجد صدیقی
جواب دیں