ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 45
دُھن عاشقی کی اور ہے، فکرِمعاش اور
پروازِ فکر اِن سے الگ، بُودوباش اور
ٹیکسوں کا جبر، کج کُلَہی، ضابطوں میں ڈِھیل
سوسائٹی کرے ہے ہمیں بد قماش اور
سنبھلیں، سنبھل سکیں تو، سنبھالیں اِسے ضرور
رُوئے وطن پہ پڑنے نہ پائے، خراش اور
ہاں زلزلے بھی کوہ تلک دَھونک دیں، مگر
اُٹھتی ہے جو ضمیر سے، ہے ارتعاش اور
ذی قامتوں کو ٹھنگنے سرِ دار لے چلیں
کھینچیں پھر اُن کی‘ُ راہ بہ راہ، لاش لاش اور
ہر فرد لخت لخت، وطن بھی ہُوا دو لخت
جانے ہو دل کا آئنہ کیا پاش پاش اور
ماجد سخن طراز ہے طبعِ رواں بہت
رَخشِ حیات بھی تو رہے بس میں کاش اور
ماجد صدیقی
جواب دیں