ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 86
پروں میں شام باندھے لا رہے ہیں
پرندے گھونسلوں کو آ رہے ہیں
یہ کس صحرا میں آ ڈالا ہے ڈیرہ
بگولے کیوں ہمیں بہلا رہے ہیں
بچھاتی ہیں جو سانسوں میں سرنگیں
وہ خبریں اب نئے پل لا رہے ہیں
ہر اک دن گانٹھ بنتا جا رہاہے
اور ہم گھونسے اُسے دکھلا رہے ہیں
قدم ایقان کے رنجور کرنے
ہزاروں وسوسے بِھّنا رہے ہیں
جو جھکڑ چھینتے ہیں برگ ہم سے
نمو جانے وہی کیوں پا رہے ہیں
ماجد صدیقی