ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 76
فیضان جن کے مِلکِ خلائق ہوئے نہیں
وہ پیڑ باغ میں کبھی پھولے پھلے نہیں
گزرا ہے جو بھی، خوب نہ تھا اور جو آئیگا
لگتا ہے اُس سمے کے بھی تیور بھلے نہیں
کہنے کو رُت نے بوندیاں برسا تو دیں مگر
شدّت بہت تھی جن میں پہر وہ دُھلے نہیں
بوندوں شعاعوں، چہروں، نگاہوں سے کچھ ملے
سب راز کائنات کے ہم پر کُھلے نہیں
برسات کی نمود بھی ہے اور بہار بھی
موسم ہیں جو بھی اپنے یہاں وہ بُرے نہیں
غاصب کو جرم اُس کا سجھائے ہے آئنہ
ہم کیا اُسے سُجھائیں کہ ہم آئنے نہیں
پیچھا کیا ہے برف نے، لُو نے بطورِ خاص
کتنے بدن تھے اُن سے جو ماجد جلے نہیں
ماجد صدیقی
جواب دیں