ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 87
جن بچّوں سے اُن کے نوالے چھن جاتے ہیں
وہ بچّے پھر کھویا چین کہاں پاتے ہیں
جس سے دہن لرزائیں روز ہمارے لیڈر
یہ وہ جُگالی ہے جس سے ہم گھبراتے ہیں
مستقبل اس قوم کا کیا ہونا ہے جس کے
اہلِ قیادت بات کریں تو ہکلاتے ہیں
ساتھ نہیں دے سکنا تھا تو چاہت کیسی
اپنے کیے پر اب کاہے کو شرماتے ہیں
میر ہیں غالب و منٹو ہیں یا فیض ایسے ہیں
جن کی فرماں روائی کے ہم گُن گاتے ہیں
وہ ساری ہیں صاحب! مبتدیوں کی باتی
جن جن باتوں پر ہم ناحق اِتراتے ہیں
اپنوں پر شاہی قائم رکھنے کو ماجد
چھوٹے شاہ بڑوں کے پہلو گرماتے ہیں
ماجد صدیقی
جواب دیں