آپ نے پُوچھا تو کیا مانوگے، میرا یہ کہا

’’چاہ میری شاعری ہے، میں پُجاری۔امن کا”

غنچے غنچے کی چٹک کو مِدحتِ مَولا کہوں

کہکشاؤں میں جھلکتا پاؤں، میں عکسِ خدا

میں یقیں کرتا نہیں کوئی بھی بِن پُن چھان کے

اور مفروضوں کو جانوں شِرک کا ہم مرتبہ

نعمت یزداں مرے نزدیک ہے نُطقِ ضمیر

جس سے رُو گردانیاں ہیں، آپ ہم سب کی خطا

میں خدا سے بھی سدا اقبال سی باتیں کروں

اور کبھی اقبال تک سے بھی میں لُوں پنجہ لڑا

چاند کی تسخیر بھی مجھ کو نہ بھا پائی کہ میں

ہمسری مابین قوموں کے ہوں پہلے چاہتا

ننھی چڑیوں پر غضب ژالوں کا تڑپائے مجھے

فاختاؤں پر کہاں بھولے عقابوں کا کیا

شورشیں برپا عرب سے تا بہ افغان و عراق

جس قدر بھی ہو چکیں، میں اُن پہ کُڑھتا ہی رہا

ویت نام و الجزائر ہو کہ ڈھاکہ فال ہو

جبر جیسا بھی ہو میرے نزدہے سب ایک سا

ہوں وہ کشمیر و فلسطیں، یا مری خاکِ وطن

جس کی بد بختی پہ بھی لکھا، وہ ورثہ ہے مرا

ہندوپاکستان میں جوپُھوٹ ہے آغاز سے

اب تلک اُس پُھوٹ کا حل کیوں نہیں ڈھونڈا گیا

اور افغانوں کی نگری میں نئی بے چینیاں

دورِ حاضر میں ہوئیں کس شہ کی جانب سے بپا

ایٹمی طاقت کہا جائے کسے، کس کو نہیں

ایسا ہونا تک مجھے ہرگز نہیں اچھا لگا

چُنگلوں میں آمروں کے آ کے جو انصاف گھر

فیصلے دیتے رہے، اُن پر بھی میں تڑپا کیا

قوم کو دکھلا کے کرکٹ، تخت بچ جاتے رہے

اِس نشے کو بھی تو تھا افیون میں نے ہی کہا

کیا کتابیں کیا سخنور، سب کی ناقدری ہوئی

اور میں جیتوں کے نوحے کیا سے کیا لکھتارہا

’’بولیاں” جو ایک صنفِ خاص ہے پنجاب میں

مجھ سے اردو شاعری میں یہ اضافہ بھی ہوا

مجھ کو بھائے ہے ہمارے ہاں ہے جو طنز و مزاح

پر اُسے مضحک بنا دینا نہیں اچھی ادا

میں نہ وصل و ہجر میں پڑ کے گنواؤں ثانیے

میں جو رس چوسوں نئے لمحات کا بڑھ کر سدا

میں خلافِ جبر ہوں چاہے وہ ہو سُسرال کا

جسکا اپنے ہاں ہر اک عورت کرے ہے سامنا

آجروں سے بَیر میرا کارکن میرے عزیز

بیوگاں کا، اور یتامیٰ کا ہوں سانجھی برملا

اور سب’ لُٹیوں، سے لے کر مائی مختاراں تلک

تذکرہ ایسی سبھوں کا میں نے شرماتے کیا

میں کوئی تفریق بھی دیکھوں جو انسانوں کے بِیچ

غیر انسانی و حیوانی اُسے سمجھوں سدا

یہ گواہی ہر کہیں میرے سخن میں پاؤگے

مجھ کو نفرت نفرتوں سے، میں ہوں چاہت پر فِدا

حرصیوں کو چاہے وہ تاجر ہوں، یا ہوں منتظم

ہر بگڑتے نظم کو ٹھہراؤں میں شاہی خطا

اور کئی مضمون بھی میرے پسِ معنی نہاں

اور کئی دنیاؤں تک بھی ہے پہنچتا فن مرا

باعثِ تشویش ہیں ماجد! بڑے بُوڑھوں کے دُکھ

نسلِ نَو کی صحتِ کردار، میرا مسئلہ

ماجد صدیقی