ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 97
تسکینِ قلب جس سی، کسی میں کہیں نہیں
میرے حسیں سا، اور کوئی بھی حسیں نہیں
ہاں ہاں رہے وہ میری رگِ جاں سے بھی قریب
ہے کو نسا پہر کہ وہ دل کے قریں نہیں
اُس کے لبوں سے لب جو ہٹیں تو کُھلے یہ بات
اُس کے لبوں سی مَے بھی نہیں، انگبیں نہیں
ابر وہیں اُس کے، آنکھ کا اُس کی خُمار الگ
صدرنگ اُس کی شکل سا کوئی نگیں نہیں
ہرشب ہیں جس کے رُوئے منوّر کے رنگ اور
جی! چاند تک بھی اُس سا درخشاں جبیں نہیں
اُس کی قرابتوں کے مضامیں جُدا جُدا
ہاں سچ ہے اُس سی کوئی غزل کی زمیں نہیں
ماجد ہیں جس کی خلوتیں تک مجھ پہ واشگاف
اُس جانِ جاں سے آنکھ چُراؤں نہیں نہیں
ماجد صدیقی