ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 37
دل جھیلوں میں اُترا چاند
مکھ ہے ترا کہ یہ پُورا چاند
مجھ کو دیکھ کے اِترایا
تجھ کو دیکھ کے سمٹا چاند
ضو اُن سب سے پھوٹ بہی
جن رستوں سے گزرا چاند
دیکھا بیٹھ کے پاس اُس کے
بِن تیرے تھا ادھورا چاند
جس نے اُسے ہے زیر کیا
تھکے نہ اُس کو تکتا چاند
دُور سے کیا رنگیں لاگے
دُھول اڑاتا پھیکا چاند
سجا ہے بیچ شکاگو کے
ماجد میرا سارا چاند
ماجد صدیقی
جواب دیں