ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 9
غارت کیا ہونا ہے اور سکون ہمارا
منظر منظر دیکھ کے کھولے، خون ہمارا
پچھلے برس بھی بجلی ہم سے کشیدہ رُو تھی
اب کے بھی پُھنکتے گزرے گا جون ہمارا
سوتے جاگتے زر بھی چاٹے، مایۂ جاں بھی
جب سے جیب کی زینت ٹھہرا فون ہمارا
اب بھی نجانے کس کس روپ میں پھوٹ پڑے ہے
پچھلے وقتوں کا دشمن، طاعون ہمارا
من موہن چکوال سے دلّی پہنچا بھی تو
ٹھیک کرائے گا کیا قاف اور نون ہمارا
جاں سے گزرتے رہنے میں ہم طاق بہت ہیں
جنموں سے ٹھہرا ہے یہی مضمون ہمارا
ماجد صدیقی