ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 88
سامنے ظلم کے لجیلے ہیں
لوگ ورنہ بہت غصیلے ہیں
وہ یقیں بھی ہے کیا یقیں جس کے
ابتدا ہی سے پیچ ڈھیلے ہیں
دیکھیے یہ بھی زہرِ ناداری
ایک خلقت کے ہونٹ نیلے ہیں
بات کرنی جنہیں نہیں آتی
لفظ اُن کے بہت نُکیلے ہیں
اِتنے تیور رُتوں نے کب بدلے
جس قدر درد ہم نے جھیلے ہیں
اُسکی زلفوں سے اُسکی قامت تک
ناگ کیا کیا نہ ہم نے کیِلے ہیں
برگ کتنے ہی سبز ہوں ماجِد
بخت ساروں کے سخت پیلے ہیں
ماجد صدیقی
جواب دیں