ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 69
جیب میں گھٹتی کوڑیاں، نام لکھیں زرداریاں
لاحق ہیں ہر شخص کو قدم قدم بے زاریاں
اصل نہ ہو تو سُود کیا، ہو اپنی بہبود کیا
کیسی دُوراندیشیاں، کاہے کی بیداریاں
گُل جی اور رئیس نے، بھٹو اور سعید نے
بُھگتیں بدلے خَیر کے کیا کیا کچھ خوں خواریاں
ہجرکے در بھی کھول دیں، وصل کے در بھی وا کریں
موٹر وے پر دوڑتی آتی جاتی لاریاں
پنچھی وہی غلام ہوں، وہی اسیرِ دام ہوں
جنکے تنوں پر نقش ہوں گردن گردن دھاریاں
لطف اُنہی کے نام ہوں، اِس دوروزہ زیست میں
جن کے عزم بلند ہوں، بالا ہوں جیداریاں
اب بھی جھلکیں ماجدا! نقش نظر میں گاؤں کے
پینگ جھلاتی عید کو پتلی لانبی ناریاں
ماجد صدیقی