ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 74
تا بہ منصف، تا بہ شہ، رستہ رسائی کا نہیں
قلعہ بند اَیوان ہیں، یارا دُہائی کا نہیں
ہاں بہت مَیلے ہیں وہ، لیکن مفیدِ رہبراں
مجرموں کو کوئی اندیشہ دُھلائی کا نہیں
کیا سے کیا کھل کھل چلی ہے اُس کے چہرے کی کتاب
ہم کریں تو کیا، کہ اب موسم پڑھائی کا نہیں
رگ بہ رگ اِک دوسرے میں آخرش ضم یو ں ہوئے
یار سے کوئی علاقہ اب جُدائی کا نہیں
ہاتھ سُکھ کی بھیک کو اُٹھنے لگے ہیں یا خدا
ہم نے حصہ آپ سے مانگا خُدائی کا نہیں
ہے تو شاہوں کو ہمارے بہرِ عشرت یہ جنوں
قوم کے افراد کو لپکا گدائی کا نہیں
وہ کہیں ماجد’ سخن مایہ، ہے کیسے اینٹھ لی
ہم کہیں یہ دَھن، دلالت کی کمائی کا نہیں
ماجد صدیقی
جواب دیں