ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 18
آپ کا منوا ہمارے من کا یار ہو جائے گا
فاصلہ رکھیے تو بہتر، ورنہ پیار ہو جائے گا
اپنے منوانے کو وہ جو بدکلامی تک کرے
اور بھی ٹھہرے گا کمتر اور خوار ہو جائے گا
ایٹمی قوت ہوئے ہم تو، یہ کیوں سوچا کیے؟
یوں ہمارا مُلک بھی، بااختیار ہو جائے گا
پے بہ پے دریا میں اٹھتی ہر نئی منجدھار سے
اپنا بیڑاگر نکل پایا تو پار ہو جائے گا
کس کو اب انکار کی جرأت کہ وصفِ خاص سے
وہ کہ بدنامِ زماں تھاتاجدار ہو جائے گا
ہاں گماں تک بھی ہمیں ایسا نہ تھا پایانِ عمر
ہم نے ماجد! جو کہا، وہ زرنگار ہو جائے گا
ماجد صدیقی