ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 81
گھر گھر رسماً زر کے ہیں انبار یہاں
غیروں کی محتاج مگر سرکار یہاں
رکھیں گرم فقط جیبیں کارندوں کی
ٹیکس بچائیں کیا کیا ٹیکس گزار یہاں
نرخ بڑھائیں وزن کریں کم چیزوں کے
ہوتا ہے یوں دُگنا کاروبار یہاں
بندشِ آب و ضیا پر ہر سو ہنگامے
سانس تلک لینا بھی ہوا دشوار یہاں
نسل بڑھائیں پودا اک بھی لگا نہ سکیں
بس اِک حد تک ہیں سارے ہُشیار یہاں
وہ جو ملا تھا وہ تو گنوا بیٹھے ہیں ہم
اُس سا ملے اب، کب دُرّ شہوار یہاں
ماجد جو بھی کہے کچھ کہہ دے سوتے میں
تجھ سی بہم کس کو چشمِ بیدار یہاں
ماجد صدیقی