ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 34
بہ جبرِ باد اُچھالے گئے ہیں پات بہت
غرورِ فرقِ شجر کھا چکے ہیں مات بہت
یہ ہم کہ بندگی عنواں ہے جن کے ماتھوں کا
خدا گری پہ ہیں اپنے تحفظّات بہت
مقدّمہ جو لڑا بھی تو اہلِ دل نے لڑا
گئے ہیں جِیت بہم تھے جنہیں نُکات بہت
رسا ہوا ہے کہیں بھی نہ کوئی آوازہ
اُٹھے ہیں جو بھی کٹے ہیں وہ سارے ہات بہت
بڑا ہی ارزل و اسفل ہے یا ہے تُخمِ حرام
بَکے ہے صبح و مسا جو مغلظّات بہت
سیاہ دَھن سے سیاہ کاریوں تلک ماجد
یہاں ہمارے سَروں کی ردا ہے رات بہت
ماجد صدیقی
جواب دیں