ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 123
درمیاں مذہب کو لانے کا عجب چرچا ملے
عادلِ اعلیٰ بھی ہے تسبیح دکھلاتا ملے
بات پس منظر میں کچھ ہے اور وہ معمولی نہیں
تیرا میرا نام ہونٹوں تک پہ کیوں لکھا ملے
دل ہمارا بھی ہے ڈانواڈول کچھ ایّام سے
اُسکی آنکھوں میں بھی ہے پھر سے بھنور اٹھتا ملے
وہ جو بندر سا نچانے لگ پڑے نامِ عوام
داؤ اس جانب سے بھی ہے کچھ نہ کچھ چلتا ملے
ہو وہ ماجد کی غزل یا ہو کبوتر کی اڑان
آن ہے ہر دو کی اِک اِک پل جداگانا ملے
ماجد صدیقی