ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 114
وہ کہ سخن کے نام پر ٹھہری ہے سلطنت مری
طرّۂ امتیاز ہے، لاج ہے، وہ ہے پت مری
میں کہ ہوں صاحبِ شرف اور خدا کا شاہکار
بیچ ملائکہ کے بھی کیا کیا بنی نہ گت مری
جن کو جز اپنی ذات کے سوجھے نہ وقرِ دیگراں
ایسے سبھوں کے منہ پہ ہے لعن مرا، چپت مری
عجزونیاز کا سبب جس سے بھی پوچھیے، کہے
میں کہ غلام رہ چکا، جاتی نہیں یہ لت مری
خائنِ بے مثال سے پوچھاتو اس نے یہ کہا
ہاں جو جواریوں کی ہو، ہاں ہے وہی بچت مری
ڈھونڈے ہوں لفظ لفظ کا کیا ہے وجودکیاعدم
جب سے ہوئے کبیدہ رُو، گوش مرے سُنَت مری
ماجد سادہ لوح ہوں میں کہ مجھے پتہ نہیں
کندہ بہ بام اوج ہے، شعر مرا لخت مری
ماجد صدیقی