ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 32
ہوتے ہوتے مرتبہ فتح و ظفر کا پا گیا
سُست رَو تھا اور تھا جو مستقل رَو، چھا گیا
جب سے ہے دونیم ٹھہرا تن جنم استھان کا
تب سے اندیشہ ہمیں اگلی رُتوں کا کھا گیا
عدل قبضے میں لیا اور انتہا کی جَور کی
حق سراؤں تک کو آمر کیا سے کیا ٹھہرا گیا
ہاں شفا مشروط جب اِذنِ جراحت سے ہوئی
زندگی میں بارِ اوّل میں بھی کچھ گھبرا گیا
ہم نے بھی ساون سمے تک دھوپ کے دھچکے سہے
زور طوفاں کا گھٹا، بارش کا موسم آ گیا
تیرتی ہے دیکھ وہ بدلی جلو میں دھوپ کے
بام پر وہ دیکھ آنچل پھر کوئی لہرا گیا
ریگ کی وسعت سَرابی، زہر سی ماجد لگی
اور صحراؤں کا موسم تُندیاں دکھلا گیا
ماجد صدیقی
جواب دیں