ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 121
تو کہ زر ہے جدھر بھی تو جائے
ساتھ بیگانگی کی خو جائے
دل کے پہلو سے یوں شباب گیا
دھن لٹے جیسے آبرو جائے
ایسی پھیلے خبر قرابت کی
گل رخوں سے، کہ چار سُو جائے
دل میں بچوں کی خیر کا سندیس
باغ میں جیسے آبجو جائے
سو بہ سو ساتھ اپنی خوشبو کے
پھول مہکے تو کو بہ کو جائے
ایسے لاگی ہمیں خطا اپنی
آگ جیسے بدن کو چھو جائے
یار ماجد تیاگ نفرت کو
برق کیونکر یہ مو بہ مو جائے
ماجد صدیقی