ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 11
منوا اپنا جس کے بِناں بے کل ٹھہرا
رُت میں اساڑھ کی درشن اُس کا جل ٹھہرا
اُس کے بچھڑنے اور پھر ملنے سے پہلے
پورا پورا سال تھا اک اک پل ٹھہرا
بعد آمر کے جانے کے بھی اک عرصہ
نظمِ تن و اعصاب تھا سارا شل ٹھہرا
شکر ہے پھر جمہور کا راج بحال ہوا
شکر ہے سپنا کوئی تو اپنا سپھل ٹھہرا
جسم سے کچھ کھونے پہ مہیب اداسی ہے
گلشنِ دل تک بھی ہے جیسے تھل ٹھہرا
ہم جو بچے ہیں تو ہمّت سے ڈھٹائی سی
پُھنک جانا ورنہ تھا ہمارا اٹل ٹھہرا
تُف بشمول ہمارے اُن سب پر جن سے
بُھٹو پھانسی گھاٹ نہ تاج محل ٹھہرا
ماجد صدیقی