ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 63
بَیر نہ ہوں باہم گر اپنے شاہوں میں
خوف دراڑیں ہوں کیوں شہرپناہوں میں
جانے کب آئے وہ راج بہاروں کا
چہرہ چہرہ پھول کھلے ہوں راہوں میں
غاصبوں جابروں کے جتنے فرزند ملے
ہاں اُن ہی کا شمارہے اب ذی جاہوں میں
پھول جو توڑنا چاہے لے گئے اور اُنہیں
خالی خُولی ٹہنیاں رہ گئیں بانہوں میں
اِس دنیا میں جانے ہمِیں کیوں، ایسے ہیں
گِنے گئے جو بے راہوں، گُمراہوں میں
مُلکوں مُلکوں اپنا تأثر بِگڑا ہے
خلقِ خدا ٹھہری، اپنے بدخواہوں میں
اپنے پاس ہے ماجِد! مایہ، بس اتنی
یہ جو گُہراشکوں کے ہیں آنکھوں، آہوں میں
ماجد صدیقی