ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 50
جیون دِیپ نے بُجھ جانا ہے آج نہیں تو کل
خلق کو ہم نے یاد آنا ہے آج نہیں تو کل
جاناں تیرا قرب بجا، پر وقت ندی کے بیچ
ہجر نے بھی تو تڑپانا ہے آج نہیں تو کل
وہی جو قیدِ حیات میں بھگت چکی ہے اُسکی ماں
دوشیزہ نے دُہرانا ہے آج نہیں تو کل
ہم نے رخش وہ چھوڑنا کب ہے، جس پہ سوار ہیں ہم
بدخواہوں نے شرمانا ہے آج نہیں تو کل
پیڑ نہ جانے اُس کی سج دھج کا باعث ہیں جو
برگ و ثمر نے جھڑ جانا ہے آج نہیں تو کل
ذہنوں ذہنوں روز بروز پنپتی نفرت کے
زہری ناگ نے اِٹھلانا ہے آج نہیں تو کل
ماجد اُس پہ نظر رکھنی ہے ہر لحظہ ہر گام
بے عملی نے دہلانا ہے آج نہیں تو کل
ماجد صدیقی
جواب دیں