ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 118
بِنائے بختِ وطن استوار کیا کرتے
حریصِ دہر تھے جو تاجدار کیا کرتے
بغیرِ قربِ نگاراں بِتائے جو دن بھی
ہم اپنی زیست میں وہ دن شمار کیا کرتے
گلاب رُو تو سجاتے رہے ہم ایلبم میں
ہم اور بہرِ فروغِ بہار کیا کرتے
ہوا نہ کاج کوئی ہم سے ہوشمندی میں
بھلا ہم اور بغیرِ خُمار کیا کرتے
اِدھر اُدھر تو ہمیں دیکھنے دیا نہ گیا
سفر ہم اور کوئی اختیار کیا کرتے
نفاق و بغض ہی اندوختہ تھا جب اپنا
فضائے ہم نفساں سازگار کیا کرتے
بھنور کے بیچ تو ہم تھے نہیں تھے وہ ماجد
ہماری جان بچانے کو یار کیا کرتے
ماجد صدیقی
جواب دیں