ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 28
ایسافیض کیے کا اپنے کس نے پایا
جیسا جُوتا شاہ نے راج کے انت میں کھایا
جِس زورآور کا بھی ہُوا ہے جُرم نمایاں
وقت نے اُس کو ہے درجہ ہیرو کا دلایا
اُس سے پوچھیے تازہ تازہ جس کو ملی ہے
کیا ہے سجناں! لَوٹ کے آئی ’صحت مایا،
خود تن جائے دھوپوں جلنے سے جو بچائے
ہاں ناپید لگے ہے اُس چھاتا کی چھایا
بعد اُس کے بھی وہ تو درخشاں ہے ہر جانب
جِس عادل نے آمر سے پنجہ تھا لڑایا
ایسا گنجلک بھی کیوں؟ نظمِ عدالت ماجِد!
ہر ملزم نے بعداِک عمر کے عدل ہے پایا
ماجد صدیقی