ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 59
آنکھوں سے تری جو ہویدا ہے وہ کیف کسی منظر میں کہاں
جو تیری قرابت میں ہے نشہ وہ اور کسی ساغر میں کہاں
تُو بات کرے توپھول جھڑیں مستی چھلکے تری آنکھوں سے
جو طنطنہ تیرے سخن میں ہے وہ اور کسی کے ہنر میں کہاں
جو باس جلو میں ترے ہے سجن کیا کہنے اُس کی تمازت کے
جو تیری نگاہ میں ہے جاناں! گرمی وہ حصولِ زر میں کہاں
تن من کو جو پل میں جگا ڈالے مائل جو کرے جل مِٹنے پر
جو آنکھ تری میں شرارت ہے، وہ اور کسی بھی شرر میں کہاں
جو ذہن و بدن کو جِلا بخشے، حدّت جو لہو کو دلاتی ہے
جو یاد تری سے ہے وابستہ وہ تازگی رُوئے قمر میں کہاں
قدموں میں جو تاب و تواں اُتری کب جسم میں ایسی توانائی
چلنے میں شرف ہے جو سمت تری وہ اور کسی بھی سفر میں کہاں
جس عمر میں چاہتے ہو کہ بڑھو پھر رفعتِ قاف کی جانب تُم
ایسی بھی توانائی ماجِد! اِس عمر کے بال و پر میں کہاں
ماجد صدیقی