ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 117
آیت بھی چھاپتے ہیں تو ساتھ اشتہار کے
جویا صحافتی ہیں زرِ بے شمار کے
بندوں پہ بندگان کو اپنے خدائی دے
احسان کیا سے کیا نہیں پروردگار کے
ٹھہرائیں ہم رقیب کسے اور کسے نہیں
ہم یار بھی ہوئے تو جہاں بھر کے یار کے
یہ بھی نجانے کیوں مرے دامن میں رہ گئیں
یہ پتّیاں کہ نقش ہیں گزری بہار کے
سیراب بھی کرے ہے پہ کاٹے بہت زمیں
فیضان دیکھنا شہ دریا شعار کے
گنوائیں کیا سے کیا جو مبلّغ ہیں خیر کے
ہائے وہ سلسلے کہ جو ہیں گیر و دار کے
اس نے تو کھال تک ہے ہماری اتار لی
زیر نگیں ہم آپ ہیں کس تاجدار کے
ہاں آ کے بیٹھتے ہیں کبوتر جو بام پر
ہاں اقربا ہیں یہ بھی مرے دور پار کے
بدلے میں ان کے کرنا پڑے جانے کیا سے کیا
یہ زندگی کے دن کہ ہیں یکسر ادھار کے
ماجد ترا سخن بھی سکوں رہرووں کو دے
گن تجھ میں بھی تو ہیں شجر سایہ دار کے
ماجد صدیقی