ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 96
تھوتھا چنا باجے گھنا، حزبِ مخالف ہے یہاں
جمہور ہی کی ترجماں، جمہور کے در پَے یہاں
جابر ہیں کچھ منہ زور بھی، ساتھ اُن کے ہیں خوشامدی
چیتوں کی ہے چنگھاڑ بھی’بکروں کی ہے بَے بَے یہاں
راگوں میں فائق جو ہُوا، رختِ خلائق جو ہُوا
جو راگ مرگ آثار ہے فریاد کی ہے لَے یہاں
اُن کے لیے، نادار ہیں بستے جو بے گھر بار ہیں
نایاب ہے بازار میں خوراک کی ہرشَے یہاں
بزم سرورِ عشق میں ہر آن دیتی ہے نشہ
چشمِ غزالی یار کی برسائے ہے جو مَے یہاں
ہاں جو بھلے کے بول ہیں، بے وز ن ہیں بے تول ہیں
جو ڈُگڈُگی لہرائے ہے ہو جائے اُس کی جَے یہاں
جو بَیل کولہو میں جُتے، ہم ہیں اُسی کے ہمقدم
جو کچھ ہمیں ہے دیکھنا، پہلے سے ہے وہ طَے یہاں
پَون صدی سے ایک سے احوال کیوں کیوں ہوئے
ماجد ہے بے لطف و سکوں جینا ہمیں تا کَے یہاں
ماجد صدیقی