ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 16
پھول کالر پر سجایا اور منوا کھو گیا
جاگتے دم ہی سجنوا تیرا درشن ہو گیا
تخت پر سوئے ملے ہیں بعد کے سب حکمراں
جب سے اِک ہمدردِ خلقت، دار پر ہے سو گیا
فصل بھی شاداب اُس کی اور مرادیں بھی سپھل
کھیتیوں میں بِیج، اپنے وقت پر جو بو گیا
اب کسی کونے میں خِفّت کا کوئی سایہ نہیں
گھر میں ہُن برسا تو جتنے داغ تھے سب دھو گیا
جب پہنچ میںآ چکا اُس کی غرض کا سومنات
اور جب مقصد کی مایہ پا چکا وہ، تو گیا
سادہ دل لوگوں نے بھگتا ہے اُسے برسوں تلک
حق میں آمر کے سبھی نے کیوں کہا یہ، لو گیا
اپنے ہاتھوں کھو دیا جس نے بھی اپنا اعتماد
لوٹ کر آیا نہ پھر وہ، شہرِ دل سے جو گیا
بعدِ مدّت جب کبھی گاؤں سے ہے پلٹا کیا
کتنی قبروں پر نجانے اور ماجد رو گیا
ماجد صدیقی
جواب دیں