ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 122
جھاڑ کے شاخ سے ناچ نئے سکھلانا جانے
تُند ہوا پتّوں کو یوں بہلانا جانے
حکم پہ اپنے خلق خدا کو چلانا جانے
غاصب پینچ نگر کے ساتھ ملانا جانے
زیر کماں منصف سے دلائے ساری سزائیں
کوئی ستمگر ہو یہ گُر اپنانا جانے
شیر ملائے جیسے سامنے آئے ہرن سے
کون بھلا کس سے یوں آنکھ ملانا جانے
وہ کیا جانے ایندھن بھی بننا ہے اسے ہی
پیڑ تو پھل دینا اور پھول کھلانا جانے
ہاں ایسا بھی اپنے یہاں ہی ہوا ہے ورنہ
کون کسی کی خاطر خود کو جلانا جانے
کون ہے ایسی لاج عدالت کی جو رکھے
ماجد ہی سقراط سا زہر چڑھانا جانے
ماجد صدیقی
جواب دیں