ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 104
خامیاں اِس میں نہ اب اور بھی اِیزاد کرو
تختِ جمہور ہے وِیراں اِسے آباد کرو
وہ کہ جو برحق و شفّاف ہے جگ میں سارے
دیس میں ووٹ کی پرچی وُہی ایجاد کرو
الفتِ ملک کے پَودے کو کہو حصّۂ جاں
پرورش اُس کی بھی تم صورتِ اولاد کرو
خیر سے یہ جو ہے چُنگل میں تمہارے آئی
یہ جو محبوس ہے جَنتا اِسے آزاد کرو
قبر پر جس کی مجاور بنے بیٹھے ہو یہ تم
تھا چلن اُس کا جو شاہو، وہ چلن یاد کرو
دیس ہے لُوٹ نشانہ، تو خزانہ ہے بدیس
اِس نشانے کو نہ اب اور بھی برباد کرو
یہ نکالی ہے جو قامت، قدِ شمشاد ایسی
اور بھی بالا نہ تم یہ قدِ شمشاد کرو
کرب کی کھائی سے اب نکلوگے کیسے لوگو
چیخ کر دیکھو، چنگھاڑو، بھلے فریاد کرو
تھا جو اُستاد وہ تھا محتسبِ اوّل ماجد
تم ادا کیوں نہ حقِ بندگیٔ اُستاد کرو
ماجد صدیقی