ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 13
بہت مشکل ہے ملنا ہم سے اُس حُسنِ گریزاں کا
بہم ہو بھی تو ہوتا ہے ترشح ابرِ نیساں کا
کناروں پر کے ہم باسی، نہ جانیں حال اندرکا
خبرنامہ عجب سا ہو چلا وسطِ گُلستاں کا
اخیرِ عمر، پِیری جس کو کہتے ہیں، کچھ ایسا ہے
شبانِ سرد میں پچھلا پہر جیسے زمستاں کا
بہ دوش و سر گھٹائیں ناچتی ہیں جیسے ساون کی
بہ دَورِ نَو بھی درجہ کم نہیں زُلفِ پریشاں کا
بہت پہلے کے دن یاد آ چلے ہیں اپنے ماضی کے
ہُوا جب اُستوار اُس سے کبھی رشتہ رگِ جاں کا
وہیں سے تو ہمیں بھی ہاتھ آیا سخت جاں ہونا
ہمارا بچپنا ہوتا تھا جب موسم کُہِستاں کا
شروعِ عمرہی سے ہے یہی پیشِ نظر ماجد!
غزل کو چاہیے رُتبہ میّسر ہو دَبِستاں کا
ماجد صدیقی