ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 4
حق سرا دربار پہنچے تو سلوک اُلٹا ہُوا
بعد اُس کے کیا ہُوا؟ ہوتا ہے جو، ویسا ہُوا
ہم نے پُچھواناکیا ابلیس سے، کیوں پِٹ گئے؟
وہ یہ بولا، ساتھ اُس کے جو ہُوا اچّھا ہُوا
کی اطاعت میں رضا اپنی تو اَوجِ عرش سے
آ پڑے ہم فرش پر حُلیہ لیے بگڑا ہُوا
بے تفنگ و تِیر بہرِ صَید نکلے شوق سے
لَوٹ کر آئے تو چہرہ تھا بہت اُترا ہُوا
شیر صاحب نے ہرن پر ہاتھ کچّا ڈال کر
شیرنی کو آ دِکھایا رنگِ رُو، اُترا ہُوا
دہشتی انسان کیا سے کیا کرشمے کر چلے
پُشتِ خرپر ریت تک میں بمب تھا لپٹا ہُوا
فصل پہلی کھیت کی تھی یا بھلے کوئی دُلہن
چودھری کے گھر سے جو لَوٹا لگا برتا ہُوا
بامُرادی میں تھی ماجِد سُرخرُوئی اور ہی
بعدِ باراں آسماں جیسے لگے کھلتا ہُوا
ماجد صدیقی