ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 124
دریا دریا جُو جُو، پت جھڑ رقص کرے
باغِ حیات میں ہر سُو، پت جھڑ رقص کرے
پتّی پتّی پھونک کے کومل پھولوں کی
اور ہتھیا کر خوشبو، پت جھڑ رقص کرے
سبزہ زرد پڑے تو دُھنک کر رہ جائے
ششدر ہوں سب آہو، پت جھڑ رقص کرے
ماند ہوئے ہیں، جتنے بھی رنگ شبابی تھے
سہم چلے ہیں گُلرو، پت جھڑ رقص کرے
روش روش لہراکر تُند بگولوں سی
اور پھیلا کر بازو، پت جھڑ رقص کرے
باغوں اور مکانوں اور ایوانوں تک
روزِ ازل سے بدخُو، پت جھڑ رقص کرے
عین عروج پہ کھیتوں اور کھلیانوں میں
ماجِد کب مانے تُو، پت جھڑ رقص کرے
ماجد صدیقی
جواب دیں