ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 103
نفرت کرنے والے خود بھی جلیں، جلائیں اوروں کو
اپنا اِک بھی طَور نہ بدلیں اور سِدھائیں اوروں کو
جو بھی ٹیڑھی چال چلے گا کب منزل تک پہنچے گا
ایسے جو بھی خسارہ جُو ہیں کیا دے پائیں اوروں کو
تُند مزاج سبھی اندر کا خُبث سجا کر ماتھوں پر
اپنا سارا پس منظر کیا کیا نہ دکھائیں اوروں کو
وہ لگ لائی جن کی نکیلیں ہیں اوروں کے ہاتھوں میں
خود ناچیں اور جی میں یہی چاہیں کہ نچائیں اوروں کو
جو بھی ہیں کج فہم وہ چِپٹا چاہیں، گول میں ٹُھنک جائے
اپنی رضا و مرضی کے اسباق سکھائیں اوروں کو
کون بتائے وہ تو خود جلتے ہیں چِخا میں چِنتاکی
لاحق کرنے پر تُل جاتے ہیں جو چتائیں اوروں کو
چُوسنیاں نوچیں، بیساکھیاں معذوروں کی چھنوائیں
ماجد صاحب آپ بھی کیا کیا کچھ نہ سُجھائیں اوروں کو
ماجد صدیقی
جواب دیں