ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 82
مرا نصیب یہ ہے خود کو بے نوا مانوں
اُٹھا کے ہاتھ اُنہیں کاسۂ دُعا مانوں
خمیر جس کا فقط گرد ہی سے اُٹھا ہو
میں ایسے ابر کو کس کھیت کی ردا مانوں
مری مراد پہ قابض ہیں بندگانِ خدا
کسے صغیر کہوں کس کو کِبریا مانوں
اِک عزم کا ہے سمندر تو اک کرم کا سحاب
جگر کو قلب سے کس طرح میں جدا مانوں
جسے کھنگال کے دیکھا وہ تھا اسیرِ ہوس
کسے حریص کہوں، کس کو باصفا مانوں
دباؤ کے ہیں کرشمے جسے جدھر لے جائیں
کسے میں فحش کہوں کس کو باحیا مانوں
یہ میرے فرق پہ چھاتا سی ہے جو صحرا میں
اِس اُڑتی ریت کو جُز ریت اور کیا مانوں
بروئے ارض ہم اہلِ خدا ہی کیوں کم ہیں
میں اہلِ شر کا یہ کیوں قولِ فتنہ زا مانوں
بڑا تضاد ہے ماجد کہے میں ہردو کے
بڑوں کا یا میں نئی نسل کا کہا مانوں
ماجد صدیقی
جواب دیں