ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 60
اپنی بانہوں میں کبھی جو وہ ستم ایجاد لُوں
اُس کے لُوں بوسے بھی اور کچھ اَور بھی ایزاد لُوں
کوئی عارض ہو درخشاں، کوئی قامت دل نشیں
اپنے آئندہ سفر کے واسطے میں زاد لُوں
کاش قُرعے ہوں سپھل میرے بہ حقِ خستگاں
اپنے داموں میں بھی نِت اِک شہرِ نَوآباد لُوں
کیسے پُوری کر دکھاؤں سب مرادیں میں تری
میں بھلا تیری خبر کیا اے دلِ ناشاد لُوں
کون زیرِ چرخ پہنچے گا رسائی کو مری
اپنے ذمّے میں کہ یہ اِک خلق کی فریاد لُوں
اپنے ہم عصروں میں منصف ہے تو اِک یاور ہی ہے
میروغالب ہوں تو اُن سے اپنے فن کی دادلُوں
ناپ کو ماجد فراہم ہوں اگر اُونچائیاں
میں سخن کے واسطے اپنے قدِ شمشاد لُوں
ماجد صدیقی