ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 61
اُس نے گھٹیا پن دِکھایا ہے تو اُس کا کیا کروں
اُس میں مجھ میں فرق کیا، میں بھی اگر ایسا کروں
وہ نہ خوشبوئے بدن تک کی کرن لوٹا سکیں
تتلیوں کے ہاتھ، میں نامے جنہیں بھیجا کروں
سُرخرو مجھ سا، نہ مجھ سا ہو کوئی با آبرو
سامنے قدموں کے کھائی بھی اگر دیکھا کروں
مجھ کو ہر قیمت پہ دُھن بس کچھ نہ کچھ پانے کی ہے
میں نے کیا کھویا ہے اِس میں، یہ نہ اندازہ کروں
دَھجیاں اخلاق کی یوں ہیں گرانی سے اُڑیں
میہماں کوئی ہو اگلی پل اُسے چلتا کروں
وقت نے توکب کے ہیں جُوتے مرے اُلٹا دئے
میں بھی تو ایسے اشارے کچھ نہ کچھ سمجھا کروں
میرے اندر کا ضمیرِ مستعد بولے یہی
بے ضمیروں سے بھی ماجد میں سلوک اچّھا کروں
ماجد صدیقی
جواب دیں