ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 75
جی رہے ہیں اور اِس جینے پہ شرم آئی نہیں
اُس بُتِ طنّاز سے مدّت سے یکجائی نہیں
رہ گیا لاگے ہمیں بولی سے باہر ہی کہیں
وقت نے قیمت ہمارے فن کی ٹھہرائی نہیں
ہم کو بھی لاحق ہے بغضِ عہد، غالب کی طرح
چاہیے تھی جو ہماری وہ پذیرائی نہیں
عاشقی بھی کی تو ہم نے ہوشمندی ہی سے کی
ہم، ہوا کرتے تھے جو پہلے، وہ سودائی نہیں
دیکھیے یہ کارنامہ بھی شہِ جمہور کا
حق دیا فریاد کا پر اُس کی شنوائی نہیں
بے حسی پر ہم پہ اندر سے جو برسائے ضمیر
چوٹ پہلے تو کبھی ایسی کوئی کھائی نہیں
جو کہا تازہ کہا ماجد بہت تازہ کہا
شاعری میں بات ہم نے کوئی دُہرائی نہیں
ماجد صدیقی