ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 125
ڈِیل آقاؤں سے کرتے جو کہے اندر کہے
اور ہے جو رہبروں کا غول ہے باہر کہے
ناگ اپنے درمیاں کے، سیر ہو کر جو کہیں
بعد چڑیوں کے نگلنے کے وُہی اژدر کہے
یہ سفر کرنے کو ملتا ہے بھلا کب بار بار
زندگانی کے سفر کو دل کہاں دُوبھر کہے
ہاں یہی دنیا ہمیں پوجے گی اک دن دیکھنا
آج ہم سے حق پرستوں کو جو ہے خودسرکہے
آدمی اُس کا کہا گر مان لے تو خوب ہے
وقت کوئی درس بھی کرنے کو جب ازبر کہے
اپنی ڈِکشن ہو مگر جو ہو پتے کی بات ہو
میں کہوں یا سعدیہ یا بات وہ یاور کہے
ریل پیل اِسکی نہ شاہوں کے یہاں بھی ہو سکے
جگ جسے فتنہ کہے ماجد جسے تُو زر کہے
ماجد صدیقی