ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 17
آسماں پر چاہ کے آٗینۂ تب ہو گیا
اشک اُس چنچل کی آنکھوں میں ہے کوکب ہو گیا
ملک ہارا، جنگ ہاری، راہنما چَلتا کِیا
یہ ہُوا وہ بھی ہُوا، ہونا تھا جو سب ہو گیا
کیا کہیں تبلیغ خُوش خُلقی کی کیوں غارت ہوئی
کج ادائی کج روی جینے کا ہی ڈھب ہو گیا
شہرتوں کی چوٹیوں پر سب مخولی جا چڑھے
شاعری سا فن اداکاروں کا کرتب ہو گیا
اوّل اوّل اہلِ دُنیا کو وُہ لرزاتا رہا
آخر آخر آدمی خود لرزۂ لب ہو گیا
میرزا غالب کو اندازہ بھی تھا، دعویٰ بھی تھا
اور وُہی اَوجِ سخن میں سب سے اغلب ہو گیا
تھا تصوّر ہی کہ ماجد جامِ جم تھا بھی کہیں؟
ہر کسی کا اپنا پی سی، جامِ جم اب ہو گیا
ماجد صدیقی