ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 12
پاس نہ تھا جب توڑ ہی کچھ صرصر کے وار کا
ہوتا بھی کیا حوصلہ جھڑنے سے انکار کا
پھٹا پڑے ہے آنکھ سے موسم بھری بہار کا
اور تمہیں کیا چاہئے پیرایہ اظہار کا
چھَن کر جن سے آ سکا کبھی نہ ریزہ دھوپ کا
چھلنی چھلنی ہو گیا سایہ اُن اشجار کا
باقی سب اطراف میں شیروں کی اِک دھاڑ تھی
کھُلا دہانہ سامنے تھا اَن جانے غار کا
قصّہ مری شکست کا کل جس میں مطبوع تھا
گھر گھر سجا فریم میں ٹُکڑا وہ اخبار کا
دُور نہ ہو گا درد تو شبنم سے اِس آنکھ کی
اور تدارک ڈھونڈئیے ماجدؔ اِس آزار کا
ماجد صدیقی