ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 89
نفس نفس ہے رہینِ الم کدھر جائیں
گرفت کون سے لمحے پہ اپنی جتلائیں
ہمیں ملی ہیں یہ کیا کامرانیاں اب کے
کہ جن کا ذکر بھی چھیڑیں تو خود ہی شرمائیں
جب اپنے نام کی سب چاہتیں دلائیں اُنہیں
تو غیر مات پہ کیونکر نہ اپنی اِترائیں
جو فرق عکسِ شباہت میں ہے انہی سے ہے
بہ ضربِ طیش اِنہی آئنوں کو چٹخائیں
وہی بعجز و ندامت ہیں نسبتیں جس کی
چلو کہ طوق وہی پھر گلے میں لٹکائیں
جو وُوں نہیں تو یہ اعزاز یوں بھی ممکن ہے
حماقتوں کے عَلَم شہر شہر لہرائیں
کسی بھی حرف کی ماجدؔ نہیں جو شنوائی
تو پھر یہ ہاتھ دُعا کے ہی کیوں نہ کٹ جائیں
ماجد صدیقی
جواب دیں