ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 68
کبھی تھا قحط تو درپے کبھی تھی طغیانی
کہ تھی زمینِ تمنّا ہی اپنی بارانی
میں آج رات بھی بے آشیاں گزاروں گا
ہے لاعلاج چمن میں مری تن آسانی
کھلے دروں وہ بصد لطف رات بھر سویا
جسے سپرد مرے گھر کی تھی نگہبانی
بہائے کاوشِ اسلاف کو بھی لے ڈوبی
بہ عہد نو مرے ناموس کی یہ ارزانی
جو مر چکے ہیں قصیدے لبوں پہ اُن کے ہیں
مرے سپرد ہے زندوں کی مرثیہ خوانی
غضب کہ رن میں جو آنکھیں نہ چار کرتے تھے
وہ بھیجتے ہیں مجھے تحفہ ہائے نسوانی
کسی سے کلمۂ تحسیں تو کیا ملے ماجدؔ
ہے تہمتوں کی مرے نام پر فراوانی
ماجد صدیقی
جواب دیں