ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 57
شیشے پہ دل کے بال کوئی آنا چاہئے
کورے ورق پہ کچھ تو لکھا جانا چاہئے
پتّھر کی اوٹ ہو کہ شجر کی پناہ ہو
سایہ ملے تو اب کہیں سستانا چاہئے
پیوست جس سے ہے وہ شجر سبز ہے تو پھر
چلتی ہوا میں شاخ کو لہرانا چاہئے
فریاد سے نہ باز رہے گا یہ دل اِسے
دے کر کوئی فریب ہی بہلانا چاہئے
وہ مہرباں تھا ہم پہ مگر کتنی دیر کو
پہلی کے چاند سے اُسے سمجھانا چاہئے
ماجدؔ شبابِ فن ہے تو سطحِ خیال پر
از خود ہی حرف حرف اُبھر آنا چاہئے
ماجد صدیقی
جواب دیں