ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 96
ہوا وہ جبر دبانے کو مدعّا اب کے
کشیدِ اشک ہے آنکھوں سے جابجا اب کے
وہ کیسا حبس تھا مہریں لبوں پہ تھیں جس سے
یہ کیسا شور ہے در در سے جو اُٹھا ہے اب کے
دَہن دَہن کی کماں اِس طرح تنی نہ کبھی،
بچا نہ تیر کوئی جو نہیں چلا اَب کے
شجر کے ہاتھ سے سایہ تلک کھسکنے لگا
وہ سنگ بارئِ طفلاں کی ہے فضا اب کے
خلاف ظلم سبھی کاوشیں بجا لیکن
سرِ غرور تو کچھ اور بھی اُٹھا اب کے
کوئی یہ وقت سے پوچھے کہ آخرش کیونکر
ہے آبِ نیل تلک بھی رُکا کھڑا اب کے
لبوں پہ خوف سے اِک تھرتھری سی ہے ماجدؔ
دبک گیا ہے کہیں کلمۂ دُعا اَب کے
ماجد صدیقی