ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 95
ہیں لب کشا بھی مگر جیسے کچھ کہا ہی نہیں
کسی پہ راز ہمارا ابھی کھُلا ہی نہیں
بھنور بھی جھاگ سی بس سطحِ آب پر لایا
جو تہہ میں ہے وُہ ابھی تک اُبھر سکا ہی نہیں
ہمیں جو ہوش میں لائے تو زلزلہ ہی کوئی
وہ بے حسی کا نشہ ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں
یہ کیسا عام ہے اعلانِ صحتِ یاراں
ہمیں جو روگ تھا وہ تو ابھی گیا ہی نہیں
شکستِ دل بھی شکستِ حباب تھی جیسے
فضائے دہر میں اُٹھی کوئی صدا ہی نہیں
کسی پہ حال ہمارا عیاں ہو کیا ماجدؔ
کھُلا کسی پہ کبھی حرفِ مدّعا ہی نہیں
ماجد صدیقی