ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 82
نہ پُوچھ مجُھ سے بھَلا میں کہاں سُنورتا ہُوں
وُہ آئنہ ہوں کہ جُڑ جُڑ کے نِت بکھرتا ہُوں
نظر ملے تو کبھی سُوئے اوج بھی دیکھوں
میں کور چشم نشیبوں میں ہی اُترتا ہُوں
بہ ایں بساط روانی کہاں مرے بس میں
کنارِ آب فقط جھاگ سا اُبھرتا ہُوں
ہوائے زرد وہیں مجھ کو آن لیتی ہے
رُتوں کے لُطف سے جَب بھی کبھی نکھرتا ہُوں
جو فرق فہم میں اپنے ہے اُس سے مُنکر ہُوں
نہ جانے تہمتیں کیوں دوسروں پہ دھرتا ہُوں
عجیب شخص ہُوں شہ رگ کٹے پہ بھی اکثر
بطرزِ خاص سرِ عام رقص کرتا ہُوں
لبوں پہ کرب اُمڈتا ہے اِس قدر ماجدؔ
چھپی رہے نہ وُہی بات جس سے ڈرتا ہوں
ماجد صدیقی
جواب دیں