ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 13
پیشانی پر دل کے درد سجا لیتا ہوں
میں ایسے اظہار سے جانے کیا لیتا ہوں
اپنے کاج سنوار بھی لوں تو اِس سے کیا ہے
میں آخر کس ٹوٹے دل کی دُعا لیتا ہوں
رکھ کر عذر پرانا وہی مشقّت والا
میں بچّوں سے چُھپ کر کیا کچھ کھا لیتا ہوں
جس سے عیاں ہو میری کوئی اپنی نادانی
کس عیّاری سے وہ بات چھپا لیتا ہوں
یہ نسبت تو باعثِ رسوائی ہے ماجدؔ
شاخ سے جھڑکے موجِ صبا سے کیا لیتا ہوں
ماجد صدیقی
جواب دیں